۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
ہندوستانی علماۓ اعلام کا تعارف

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسیمولانا سید محمدیونس رضوی قبلہ جارچوی ابن سید محمد یوسف رضوی جارچوی(دہلی) کی ولادت تقریباً سن 1331ہجری بمطابق سن1911عیسوی میں سرزمین جارچہ سادات پر ہوئی۔

مولانا کی ابتدائی تعلیم ان کے وطن (جارچہ سادات) میں انجام پائی، اس کے بعد شہر لکھنؤ میں رہ کر تعلیم حاصل کی اورکچھ عرصہ بعد عراق کے لئے عازم سفر ہوئے اور عراق کی راجدھانی(بغداد) میں کاظمین کے علاقہ میں رہ کر اپنی تعلیم کو آگے بڑھایا۔

جب عراق کے صدر "عبدالسلام عارف" کی حکومت تحلیل ہوئی اس وقت آپ عراق کو ترک کرکے لائل پور آگئے اور وہاں زندگی شروع کی۔ لائل پور دھوبی گھاٹ میں موجود امامبارگاہ "عزاخانہ شبیر" کے ذریعہ تقاریر اور اسلامی تعلیمات کا آغاز کیا۔

آپ تقریباً سن 1947 عیسوی تک برطانوی فوج میں خدمت انجام دیتے رہے اور اس کے ذریعہ آپ نے پی 114 بی، پیوپلز کالونی نمبر(1)سموسہ چوک ، ڈی گراؤنڈ، فیصل آباد میں پلاٹ خریدا۔

مولانا نے دعائے مشلول اور دعائے سباسب کا عمل کیا تھا اور یہ چلہ آپ نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے حرم مطہر یعنی کاظمین میں بیٹھ کر انجام دیا۔

مولانا یونس رضوی، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم طباطبائی کے شرعی وکیل تھے۔ سن 1955 عیسوی سے معجزہ نامی اخبار کے ایڈیٹر قرار پائے نیز فیصل آباد کی 25/رجب میں شہادت امام کاظم علیہ السلام کی مناسبت سےمنعقد ہونے والی مشہور و معروف ،قدیمی اور مرکزی مجلس کے بانی، سرپرست اور لائسنس ہولڈرکے عنوان سے پہچانے گئے۔

مولانا کی زبان میں اس قدر مٹھاس تھی کہ آپ نے اپنی تقاریر کے ذریعہ شیعہ اور سنی، دونوں فرقوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیا تھا اور آپ منادی وحدت کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔

شیعہ سنی اتحاد کا نتیجہ واضح تھا، امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے منعقد ہونے والی عزاداری کے لئے اہلسنت حضرات بھی راضی ہوئے اور انہوں نے عرضی پر دستخط بھی کئے جس کا سہرا مولانا موصوف کے سر رہا۔

یہ عزاداری آج بھی برقرار ہے جس کو مولانا یونس صاحب کے بیٹے(1)سیدحیدرعلی رضوی (2)سیدنجف علی رضوی اور مولانا موصوف کے پوتے انجام دیتے ہیں۔

یہ عزاداری 25/رجب بوقت نوبجے صبح شروع ہوتی ہے، بعدِ مجلس تابوت امام کاظم علیہ السلام برآمد ہوتا ہے اور تابوت کی ہمراہی میں جلوس کا اہتمام ہوتا ہے، مولانا مرحوم کے طے شدہ قوانین کی بنیاد پر آج بھی دوران جلوس نماز ظہرین باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جلوس کے اختتام پر امام کاظم علیہ السلام کے نام سے منسوب دسترخوان ، نذر، شربت اور چائے وغیرہ کا معقول انتظام رہتا ہے۔

جس پودے کی مولانا نے کاشتکاری کی تھی، حال حاضر میں وہ پودا ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے، جس کا مشاہدہ ہر سال قابلِ دید ہے، ہمیں امید ہے کہ اس عزاداری کو ان کی نسلیں امام زمانہ عج کے ظہور تک ایسے ہی جاری و ساری رکھیں گی۔

مولانا یونس جارچوی 30/ذیقعدہ سن 1407ہجری بمطابق 27/جون سن1987عیسوی میں 76/سال کی عمر میں دارفانی سے دار بقا کی جانب کوچ کرگئے اور نماز جنازہ ادا ہونے کے بعد شہر فیصل آباد کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔

۞۞۞
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج 8، ص249، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2021ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .